484

زبانِ اردو کے شائقین اس طرف بھی توجہ فرمائیں

جنرل ولیم سلم 1942ءمیں عراق میں ایک برطانوی ڈویژنل کمانڈر ہوتا ہے۔ جاپانی برما پر یلغار کرتے ہیں اور برما کے دارالخلافے رنگون پر قبضہ کرکے اتحادی افواج کو بمشکل جان بچانے کا موقع دیتے ہیں۔ ان ایام میں یورپ اور شمالی افریقہ میں بھی دوسری عالمی جنگ کے خونریز معرکے لڑے جا رہے ہوتے ہیں، اس لئے اتحادی، برما محاذ کو اتنی اہمیت نہیں دیتے، تاہم برٹش GHQ جنرل سلم کو عراق سے تبدیل کرکے برما میں جاپانیوں کے خلاف بھیج دیتا ہے…. یہی جنرل سلم آخر کار 3سال کی لگاتار کوششوں سے جاپانیوں کو برما میں شکست فاش دے کر بھاگنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اس طرح ہندوستان پر جاپانیوں کے قبضے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔

فیلڈ مارشل ولیم سلم نے 1951ءمیں اپنی خود نوشت (Defeat Into Victory) کے نام سے لکھی ہے جس میں برما محاذ کا بھرپور، دلچسپ اور عسکری اسباق سے لبریز بیان ملتا ہے۔ اس کتاب کے پہلے دو چار اوراق کا اردو ترجمہ ملاحظہ کریں۔ اردو زبان میں جنگ و جدال کی تاریخ پر جتنی تصانیف آپ کی نظر سے گزری ہوں گی، ان سے اس کا موازنہ کریں اور دیکھیں کہ دونوں میں کتنا اور کیسا فرق ہے: …………….

صحرائے عراق میں متعینہ ایک ڈویژن کی کمان بڑی ہی پرلطف تھی۔ دراصل کسی بھی ڈویژن کی کمان کسی بھی جگہ ہو بڑی ہی کیف انگیز ہوتی ہے۔ ڈویژن کی کمان کا شمار چار اہم ترین کمانوں یعنی پلاٹون، بٹالین ، ڈویژن اور آرمی کی کمانوں میں ہوتا ہے۔ پلاٹون کمان کرنا اس لئے اہم ہے کہ یہ آپ کی پہلی کمان ہوتی ہے۔ آپ کا خون گرم ہوتا ہے اور اگر آپ ایک اچھے پلاٹون کمانڈر ہیں تو آپ اپنے آدمیوں کو ان کی ماﺅں سے بھی کہیں زیادہ اچھی طرح جانتے اور محبوب رکھتے ہیں …. دوسرے نمبر پر بٹالین کی کمان ہے۔ بٹالین ایک ایسی یونٹ ہے جس کی اپنی ایک الگ زندگی ہے۔ یہ اچھی یا بُری جیسی بھی ہے صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہے۔ بٹالین کی کمان ایک حقیقی کمان ہوتی ہے۔…. اس کے بعد ڈویژن کو لے لیجئے یہ سب سے چھوٹی فارمیشن ہے جو جنگ کا گویا مکمل آرکسٹرا ہے لیکن ان معنوں میں سب سے بڑی ہے کہ اس کے سارے لوگ ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہیں….اور آخر میں آرمی کا نمبر آتا ہے۔ اس سطح پر حالتِ جنگ میں ایک عظیم جذبے اور قیادت کی تخلیق آپ کو جذباتی اور ذہنی تجربے کی دلچسپ ترین وحدت سے آشنا کرتی ہے۔

10انڈین ڈویژن کی کمان میرے لئے بالخصوص ایک نہایت اچھی کمان تھی۔ ہم بحیثیت ڈویژن ایک تشخص حاصل کر چکے تھے۔ ہم نے عراقی بغاوت کو دبا دیا تھا۔ شام میں فرانسیسیوں کے خلاف لڑتے ہوئے گو ہمارا خاصا جانی نقصان ہوا تھا، تاہم گھاﺅ ایسے گہرے نہ تھے۔ پھر ایران کو ہم نے آن کی آن میں جا لیا تھا۔ ہم نے حیفہ کی بندرگاہ سے آغاز سفر کیا تھا اور منزلیں مارتے بحیرہ کیسپین تک آ پہنچے تھے۔ اب ہم ہر جگہ نقل و حرکت کرنے کے اہل تھے، لڑ سکتے تھے اور اس عزیز ترین متاع کی تشکیل میں مصروف تھے جسے روایتاً فتح کا نام دیا جاتا ہے…. ہمیں اپنی سپاہ گری پر خاصازعم ہو چلا تھا۔

اب مارچ 1942ءبھی آن پہنچا تھا۔ عراق میں بادِ سموم کے جھکڑ چل رہے تھے۔ ہمارے پاس ساز و سامانِ جنگ کی قلت تھی۔ اسلحہ اور بارود بھی متروک قسم کا تھا۔ پھر بھی مورچے کھود کھود کر ہم نے اپنے آپ کو خاصا مشّاق بنا لیا تھا۔ لیکن جس مقام پر ہم خیمہ زن تھے وہ ایسی نازک جگہ تھی کہ جہاں جرمنوں کی طرف سے ترکی پر چڑھائی کا ہر وقت خطرہ موجود تھا۔ اگر اس وقت جرمن ترکی پر حملہ کر دیتے اور ان کے ٹینک ڈویژن، ترکی کے نقرئی افق پر آنمودار ہوتے تو ان دیوہیکل مشینوں کے سامنے ہماری حیثیت پرِکاہ کی سی ہوتی۔ لیکن باایں ہمہ صحرا کی وسعتوں میں روزانہ سو سو میل تک فیلڈ گلاسز پہن کر گشت لگانا بڑا سہانا لگتا تھا۔ دراصل صحرا اور صحراﺅں میں لڑنا دونوں اہلِ برطانیہ کو راس آتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ دور تک اپنے آدمیوں سے نظری رابطے میں رہتے ہیں۔

اندیں حالات جب ایک روز جھیل حبانیہ کے کنارے ایک کھنڈر میں قائم کئے گئے میرے ہیڈکوارٹرز میں فون کی گھنٹی بجی اور مجھے کہا گیا کہ آرمی کمانڈر بغداد مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے تو میں نے ریسیور اٹھایا۔ مجھے حکم دیا گیا کہ میں تین دن کے اندر اندر انڈیا پہنچوں…. میرا دل بیٹھ سا گیا۔

”کیا مجھے معزول کیا جا رہا ہے؟“ میں نے پوچھا۔

”نہیں ایک نئی ذمہ داری تمہاری منتظر ہے“ آواز آئی۔

”لیکن میں کوئی نئی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہتا۔ میں اپنے ڈویژن میں بہت خوش ہوں“میں نے گزارش کی۔

”ایک اچھے سپاہی کی خصوصیت ہے کہ جہاں اسے کہا جائے بلاچون و چرا چلا جاتا ہے اور وہی کرتا ہے جس کا اسے حکم دیا جاتا ہے“….

میرے کانوں میں ٹیلی فون کی گھنٹی تادیر گونجتی رہی۔

لگاتار تندو تیز صحرائی طوفانوں نے میری روانگی میں کچھ دنوں تک رکاوٹ ڈال دی اور الوداع کہنے کے اداس لمحوں کو میرے لئے کچھ اور طویل بنا دیا۔ لیکن آخر کار میں اب جھیل حبانیہ سے کوچ کرنے والا تھا۔ میرے ڈویژن ہیڈکوارٹرز کے نصف درجن لوگ مجھے خدا حافظ کہنے آئے ہوئے تھے۔ریت کے بگولوں کے تھپیڑے میرے چہرے پر برس رہے تھے۔جونہی میں نے ان میں سے نکلتے ہوئے اپنے سٹاف پر نگاہ ڈالی تو مجھے شدت سے احساس ہوا کہ یہ لوگ بھی اتنے ہی غمزدہ ہیں ۔ میں اپنی عادت کے مطابق جہاز کی کھڑکی کھولتے ہی اندر جا بیٹھا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی میرا سر دروازے سے ٹکرا گیا تھا۔ میں نے پائلٹ کو اشارہ کیا کہ سفر کا آغاز کرے۔ اس اثناءمیں میں نے جہاز کے عملے کو بحث کرتے سنا کہ یہ موسم پرواز کے لئے ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ تاہم پائلٹ نے فیصلہ کیا کہ پرواز کی جا سکتی ہے۔ طیارہ فضا میں بلند ہو رہا تھا۔ مجھ پر اپنے ڈویژن کی جدائی نہایت شاق گزر رہی تھی لیکن ایسے میں صرف ایک احساس مجھے طمانیت دے رہا تھا۔ میں نے اپنی بیوی کو بذریعہ تار مطلع کر دیا تھا کہ وہ دہلی کے ہوائی اڈے یا ریلوے اسٹیشن پر میرا انتظار کرے۔

اگلے روز ہم گوالیار کے نواح میں ایک خشک ہوتی ہوئی جھیل کے کنارے اترے اور ریل کے ذریعے ایک مشقت آزما سفر کے بعد دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچے جہاں میری اہلیہ میری منتظر تھی…. اگلے روز میں صبح جنرل ہیڈکوارٹرز انڈیا پہنچا تو نہ ہی کسی کو میرے کام کی نوعیت کے بارے میں علم تھا اور جہاں تک میں سمجھ سکا تھا نہ ہی کوئی بتانا چاہتا تھا کہ میری آئندہ ذمہ داری کیا ہو گی۔ لیکن ایک بات جو یقینی تھی وہ یہ تھی کہ میں فوری طور پر برما پرواز کرنے والا ہوں۔ میرے ہمراہ لیفتیننٹ جنرل مورس (Morris) چیف آف دی جنرل سٹاف اِن انڈیا بھی محاذ کی تازہ صورت حال دیکھنے جا رہے تھے جو زیادہ تسلی بخش نہ تھی۔ مجھے فوری طور پر مورس کے ساتھ روانگی کی کوئی وجہ بھی سمجھ میں نہ آئی، لیکن اب کی بار ”ایک اچھے سپاہی کی طرح“ میں نے کسی سے بھی یہ نہیں پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور کیوں جا رہا ہوں۔

ہم دہلی سے صبح سویرے روانہ ہوئے۔ رات کلکتہ میں بسر کی۔ پھر اکیاب (Akyab) میں اترے جو ساحلِ اراکان (Arakan) پر برما کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ ہے۔ یہ جگہ ایک نہایت خوش نما اور پُرسکون ساحلی قصبہ ہے۔ ہندوستان میں اکثر مقامات اور دیہات کے برعکس برما کے اکثر قصبے اور شہر صاف ستھرے اور خوبصورت تھے۔ ہم تادیر جنگی صورت حال پر ائروائس مارشل سٹیون سن (Stevenson) سے جو برما میں ایئر آفیسر کمانڈنگ تھے بات چیت کرتے رہے…. رنگون 9مارچ کو یعنی کچھ ہی روز پیشتر جاپانیوں کے قبضے میں جا چکا تھا اور برطانوی سپاہ کہ جو نہایت مشکل سے رنگون سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی اب اپنی صفیں درست کر رہی تھی۔ فضائی اور بری دونوں محاذوں پر صورت حال خاصی تشویش ناک تھی۔

فضائی جنگ میں اگرچہ دشمن کو ہمارے مقابلے میں مکمل عددی برتری حاصل تھی پھر بھی ہماری کارکردگی زمینی جنگ کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ فضائی قوت کی اہمیت کسی بھی جنگ میں بدیہی ہوتی ہے۔ لیکن برما میں آغازِ جنگ ہی سے اسے ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی۔ بری محاذوں پر جاپانیوں کے ساتھ جنگ میں جتنے بھی منصوبے برطانیہ والوں نے بنائے تھے ان تمام میں فضائیہ کو دشمن کو روکنے اور اس کی پیش قدمی کو معرضِ تاخیر میں ڈالنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ دراصل یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور جیسا کہ ہم نے اور ہمارے ساتھ جاپانیوں نے بھی آنے والے تین برسوں میں مشاہدہ کیا، فضائی حملے کبھی بھی زمینی یلغاروں کو روکنے میں کامیاب ثابت نہ ہوئے اور اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو 1942ءمیں برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ فضائی قوت، برما میں ایسا کرنے کی صلاحیت سے عاری تھی۔

دوسری چیزوں کی طرح طیاروں کی ترسیل اور بانٹ کے لئے بھی برما محاذ ترجیحی فہرست میں سب سے آخری نمبر پر تھا۔ اور دسمبر 1941ءمیں تو برما میں اتحادیوں کی فضائی قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ جو کچھ اس وقت برما میں موجود تھا اس میں رائل ایئر فورس کا ایک سکواڈرن جس کے پاس بفیلو (Buffalo) نام کے طیارے تھے، انڈین ایئر فورس کی ایک فلائٹ جس کے پاس متروک قسم کے جہاز تھے اور امریکن والنٹیئر گروپ (AVG)کا کا نمبر3سکواڈرن جس کے پاس ٹام ہاک پی 40نام کے طیارے تھے، موجود تھا۔ اگرچہ رائل ایئر فورس کا ایک بمبار سکواڈرن بھی اس چھوٹی سی فضائیہ میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ اس لئے نہیں شمار کیا جا سکتا کہ اس کے طیارے تو ملایا میں تھے اور صرف عملہ برما میں پہنچ پایا تھا۔

امریکن والنٹیر گروپ کو کرنل شنالٹ (Chennault) کی ولولہ انگیز قیادت میسر تھی اور اس کے ذمے برما۔ چائنا روڈ کی حفاظت تھی۔ اس سڑک کے ایک سرے پر کن منگ (Kunming) کا قصبہ واقع تھا جو چینی علاقے میں تھا۔

جنرل چیانگ کائی شیک کو اس امر کا شدت سے احساس تھا کہ رنگون کا شہر اس سڑک پر گویا ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا اس سڑک کی حفاظت کے لئے اس نے جنگی طیاروں کا ایک سکواڈرن (نمبر3 سکواڈرن) وہاں بھیج رکھا تھا۔ AVG کے پائلٹ اور دوسرا عملہ امریکی فضائیہ کے چنیدہ لوگوں پر مشتمل تھا اور ان کو جاپانیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا وسیع تجربہ حاصل تھا(اگرچہ امریکہ ابھی تک باقاعدہ طورپر جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا) ۔ان تمام ہوا بازوں کا شمار دنیا کے کسی بھی ماہر لڑاکا ہوا بازوں کی صف میں کیا جا سکتا تھا۔ پھر یہ بھی تھا کہ جاپانیوں سے مقابلے میں ان امریکی ہوا بازوں کو برطانوی ہوا بازوں پر واضح فوقیت حاصل تھی۔ تاہم یہ اینگلو امریکی فورس جس دشمن کے خلاف نبرد آزما تھی وہ اس پر زیادہ بھاری اور زیادہ طاقت ور تھا۔

اندازہ لگایا گیا تھا کہ برما میں جاپانیوں کے خلاف بمباروں کو چھوڑ کر کم از کم چودہ لڑاکا سکواڈرن درکار تھے۔ لیکن جب جنگ کا آغاز ہوا تو ملک میں صرف دو لڑاکا ، ایک بمبار اور دو امدادی سکواڈرن موجود تھے۔ کچھ عرصہ بعد ہری کین (Hurricane) لڑاکا طیاروں کے تین سکواڈرن جن میں اکثر طیارے فرسودہ اور ناکارہ تھے اور بلنیہم (Blenheim) بمباروں کا ایک سکواڈرن بھی پہنچ گئے۔مزید برآں فاضل پرزوں کی شدید قلت تھی۔ ہماری اس چھوٹی سی فضائیہ کے مقابلے میں دشمن کے پاس ڈیڑھ سو آپریشنل (Operational) لڑاکا اور بمبار طیارے موجود تھے۔

یہ کتاب جو برما وار (1942-45ئ)کے بارے میں ہے، ایک طرح کی ”توزکِ جنرل ولیم سلم“ بھی کہی جا سکتی ہے۔ جن دوستوں نے توزکِ تیموری ، توزک بابری اور توزک جہانگیری کے اردو تراجم پڑھ رکھے ہیں، وہ جب اس جدید طرز کی توزکِ سلم پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کو حیرت اور مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ حیرت اس لئے کہ مصنف، کاروبارِ جنگ کی شناسائی کا جو تفصیلی ثبوت اپنی توزک میں فراہم کرتا ہے۔ وہ اچنبھے میں ڈالنے والا ہے اور مشکل اس وجہ سے ہے کہ درجِ ذیل سوالات کے جواب اس کی تفہیم میں جگہ جگہ سدِ راہ ہوتے ہیں:

1۔ برما، عراق، جھیل حبانیہ، ترکی، بحیرئہ کیسپین، گوالیار، کلکتہ، اکیاب اور ساحل اراکان کا جغرافیائی محلِ وقوع کیا ہے؟

2۔جنگی طیاروں کی ترسیل اور بانٹ چہ معنی دارد؟

3۔جنرل چیانگ کائی شیک کون تھا؟

4۔برطانوی، امریکی اور جاپانی جنگی طیاروں کی اقسام اور ان کی تنظیم (فلائٹ، سکواڈرن، ونگ وغیرہ) کیا ہے؟

پاکستان نے انڈیا کے ساتھ اب تک جو چار جنگیں لڑی ہیں ان کی تاریخی کتب، بیشتر انگریزی زبان میں ہیں۔ پاکستانی ملٹری آفیسرز نے بھی ان پر جو کچھ لکھا ہے، وہ بھی انگریزی میں ہے۔ لیکن ہمارا قاری جو انگریزی زبان اور ملٹری اصطلاحات سے کم کم آشنا ہے اور علاقہ ہائے جنگ کے جغرافیائی محل وقوع سے بھی زیادہ واقف نہیں وہ ان جنگوں کی تاریخ کیسے سمجھ سکتا اور اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے؟ افغان جہاد (1980-88ئ) اور سابق فاٹا میں طالبان کے خلاف پاکستان کے ’ٹاکرے‘ (2001-2019ئ) بھی اسی ذیل میں شمار کئے جانے چاہیں۔

پاکستان کی شرحِ خواندگی جوں جوں اوپر جا رہی ہے ملٹری تحریروں کو اردو زبان میں ڈھالنے اور ان سے آگاہی کا چیلنج زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔حکومت کے متعلقہ اداروں اور پاکستانی پبلشنگ ہاﺅسز کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں