عید سے پہلے کام کا آخری دن تھا۔ دفتر سے گزرتے ہوئے میں نے دفتر میں بیٹھے دو کلرکوں کو عید کی ایڈوانس مبارکباد کہی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ اداس نظر آ رہے ہیں اور مباک باد کے جواب میں چپ چپ ہیں۔میں نے ہنس کر کہا، کیا عید پر خوش نہیں۔ ان میں سے ایک نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور گویا ہوا۔ جناب کیسی عید اور کس کی عید۔ سٹاف کے سینئر لوگ اگر ہماری مدد نہ کرتے تو رمضان بھی بڑی کسمپرسی میں گزرنا تھا، اب گزارہ ہو گیا ہے۔ عید توبچوں کی ہوتی ہے۔بچے نئے کپڑے مانگتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کرتے ہیں۔ مہنگائی گھر کی روٹی پوری نہیں ہونے دیتی۔ ان کی فرمائشیں کیسے پوری کریں۔ ان کی باتیں فقط پریشان کرتی ہیں۔نئے کپڑے لے کر دینا تو سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
اس حکومت کے آنے تک میرے گھر میں صرف میں اپنے کپڑے کبھی کبھی دھوبی سے دھلا لیاکرتا تھا۔ کبھی گھر میں دھو کر استری کر لیتے تھے۔ اس حکومت نے مہنگائی اس تیزی سے کی ہے کہ پہلے میں نے دھوبی سے دھلوانا بند کیا۔ مہنگائی اور بڑھی تو بجلی کا بل دینا دوبھر ہو گیا۔ہم نے کپڑوں کو استری کرنا بھی بند کر دیا۔ استری نہیں کرتے تو کیا کرتے ہو، میں نے پوچھا۔ بڑی تلخ سی مسکراہٹ چہرے پر لا کر کہنے لگا کہ کپڑے سیدھے کر کے رات تکیے کے نیچے رکھ دیتے ہیں صبح وہ استری نما ہو جاتے ہیں، اسی سے گزارہ کر رہے ہیں۔ آپ ذرا میرے کپڑوں کی طرف دیکھیں، لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے ہی نچوڑ دیا ہے۔شاید یہ صحیح بھی ہے، موجودہ حکومت نے غریبوں خصوصاً چھوٹے سرکاری ملازمین کو مکمل نچوڑ کے رکھ دیا ہے۔یہ عجیب عید ہے ہمارے پاس سوائے محرومیوں کے کچھ نہیں۔میں نے کہا، بھائی حوصلہ رکھو،لیکن اس کا کہنا تھا، ضروریات آمدنی سے دگنی ہو رہی ہیں، تنخواہ دگنی ہو گی، ہرگز نہیں۔ صرف بھوک بڑھ جائے گی۔ خود کشیوں کی رفتار تیز ہو جائے گی۔لوگ پہلے بچوں کو دریا برد کریں گے پھر خود چھلانگ لگا دیں۔ میں نے دیکھا، موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں میں مچل رہے تھے۔ میں اچھے موڈ میں تھا مگر اس کی تلخ اور سچی باتوں نے مجھے ڈیپریس کر دیا۔مجھے لگا کہ میں نے کوئی مزید سوال کیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔ اس لئے خدا حافظ کہہ کر بہت اداس اداس وہاں سے چلا آیا۔
پچھلے پندرہ بیس سال سے میری بیگم ہر مہینے کے ابتدائی دنوں میں کینٹ کے ایک بڑے سرکاری سٹور سے مہینے بھر کا راشن لیتی ہے۔ میں بحیثیت ڈرائیور اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اس ماہ راشن کا بل دینے سے پہلے اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہنے لگی، ”یہ آپ کی حکومت کا کمال ہے، مہنگائی کو شاندار پہیے لگ گئے ہیں۔ پچھلے پورے سال راشن کا بل چودہ پندرہ ہزار سے کبھی بھی زیادہ نہیں تھا۔ جب سے آپ کی حکومت آئی ہے، ہر ماہ ایک دو ہزار بڑھ جاتے ہیں، اس ماہ بائیس ہزار بل بن گیا ہے حالانکہ میں نے بہت سی چیزیں نہیں لیں۔ وہ اس حکومت کو میری حکومت کہتی ہے اس لئے کہ میں نے زندگی میں پہلی بار اپنی ذاتی پسند کی جماعت اور ذاتی نظریے کو پس پشت ڈال کر نہ صرف خود تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا گناہ کیا ہے،بلکہ بیگم اور کچھ دوسروں سے بھی ووٹ دلوایا ہے، مثبت تبدیلی کی آس میں، ا ور اسی جرم کی پاداش میں بیگم تو کیا زمانے بھر کی باتیں سنتا ہوں۔یہ وہ غلطی ہے جس کا کسی طرح کفارہ بھی ممکن نہیں۔
بجٹ کی تقریر ہم دونوں یعنی میں اور میری بیگم نے، اپنے کمرے میں بیٹھے سنی۔ بجٹ کے بعد بیگم منہ بنائے بلکہ پھلائے اٹھ کر باہر چلی گئی۔ جب واپس آئی تو مجھ پر برس پڑی۔ کل سے آپ لوگوں کو گھر آنے کی دعوت کم سے کم دیں گے۔ آپ دیکھتے ہی نہیں کہ مہنگائی سے خرچ میں بیس ہزار کا اضافہ ہو گیا ہے اور آپ کی پنشن صرف چار پانچ ہزار بڑھی ہے۔ کیسے گزارہ ہو گا۔ مصیبت تو مجھے ہے آپ کو کیا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ اللہ بہتر کرے گا، کچھ اور کرتے ہیں۔ بیگم مزید ناراض ہو گئی۔مجھے رونا آ رہا ہے آپ ہنس رہے ہیں کہ کچھ کریں گے۔ستر سال کے ہونے والے ہیں۔ تین چار ہزار کی دوائیں نہ کھائیں تو بستر پر لیٹے ہوتے ہیں اس عمر میں اب کیا کریں گے۔ سوائے باتیں بنانے کے آپ کو آتا کیا ہے۔ خاتون خانہ بجٹ کی تباہ کاری کے صدمے کے سبب کچھ جذباتی ہو رہی تھی۔ کسی حادثے سے بچنے کو چپ رہنا ہی بہتر تھا۔ دھیمے مزاج کے لوگ بھی اس انداز میں بھولنے لگیں تو یقیناکچھ نہیں بہت غلط ہوا ہوتا ہے۔ مگر یہ میری نہیں ہر گھر کی کہانی ہے۔
پچھلے گیارہ مہینوں میں جو چیز تیزی سے پاتال میں گر رہی ہے، بد ترین تنزلی کا شکار ہے، وہ لوگوں کا عمران پر اندھا اعتمادہے۔عمران خان کہتے ہیں مجھ پر اعتبار کرو، مگر کیوں؟ آپ نے کوئی چیز اعتبار کے قابل چھوڑی کہاں ہے۔زبانی باتوں سے بڑھ کر کوئی عملی قدم جو کسی مثبت سمت میں اٹھا ہو نظر نہیں آتا۔ کرپٹ لوگوں کے خلاف آپ کے کمزور اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ بجائے شرمسار ہونے کے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکس ریٹ بڑھا کر، امپورٹ بند کر کے اور کچھ سختی کر کے معیشت بہتر کر لیں گے۔ ان اقدامات سے کچھ نہیں ہو گا۔ٹیکس ریٹ جتنا زیادہ ہو تا جائے گا گورنمنٹ کولیکشن اتنی کم ہوتی جائے گی، البتہ اہلکاروں کی چاندی ہو جائے گی۔
یہ کرپشن کو فروغ دینے والا اقدام ہے۔ لوگ بھاری ٹیکس دینے کی بجائے مک مکا کرنا بہتر سمجھیں گے اور ایسی پیشکش کے پیکیج آپ کے اہلکارہر وقت لئے پھر رہے ہوتے ہیں۔آپ کے اقدامات سے سرکاری اہلکار کے ریٹ زیادہ اور سرکاری کولیکشن کم ہو گی۔ امپورٹ کا تعلق سپلائی اور ڈیمانڈ سے ہے۔وہ چیز جس کی مارکیٹ میں طلب ہے، تاجر کسی نہ کسی طرح مارکیٹ میں مہیا کریں گے۔ جائز امپورٹ نہیں ہو گی تو ناجائز سمگلنگ اس کا علاج ہے۔ امپورٹ کے خاتمے کے صحیح اقدامات، انڈسٹریٰ کی بحالی اور نئی انڈسٹری کا قیام ہے، جس پر آپ کی ٹیم نے غور ہی شروع نہیں کیا۔کہیں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ گاڑی جو آج کے دور میں عیاشی نہیں عام آدمی کی ضرورت ہے اس کا حال دیکھیں، لوگوں کو گلا تھا کہ اردگرد کے ملکوں کی نسبت گاڑیوں کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ آپ نے صورت حال کو بہتر کرنے کی بجائے قیمتیں دگنا کر دی ہیں۔جو گاڑی پاکستانی روپوں میں بھارت میں دس لاکھ کی ہے پاکستان میں پچیس لاکھ میں ملتی ہے اور ابھی امید ہے آپ مزید کمال کریں گے۔ ڈالر کے ریٹ کو کنٹرول کرنا آپ کے بس میں نہیں۔اسے کہیں تو روکیں۔الٹا،آپ کے اقدامات کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے امپورٹر تباہ ہو چکے۔ ان کا سرمایہ آدھا رہ گیا ہے۔مگر کچھ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ آپ کی معاشی ٹیم میں یا تو ذہنی اپاہج ہیں یا کرایے کے لوگ، جنہیں پاکستان اور پاکستانی عوام سے کوئی سروکار نہیں۔
ایک کمانڈر اپنی ٹیم کے ساتھ ایک جگہ موجود تھے۔ کمانڈر صاحب صرف نعرے بازی کر رہے تھے۔ بہت دنوں سے بڑی بڑی باتوں سے لوگوں کا دل بہلا رہے تھے۔ ان کی ٹیم کے لوگوں کا بھوک سے برا حال تھا۔ انہوں نے بار بار روٹی کا مطالبہ کیا۔ کمانڈر صاحب نے فرمایا کہ دیکھو، سامنے وہ توپ کھڑی ہے جس میں بارود بھرنے کی دیر ہے، چند دن انتظار کرو۔ توپ چلے گی سب تہس نہس ہو جائے گا پھر ہم پیش قدمی کریں گے اور من ہو گا سلویٰ ہو گا، مجھ پر اعتبار کریں۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ مر رہے ہیں۔ کمانڈر نے پرواہ نہ کی۔ ساحر نے کہا ہے کہ بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی۔ واقعی بھوک اورافلاس کے کوئی اخلاقی ضابطے نہیں ہوتے۔ مرتے ہوئے لوگ ہمت کرکے اٹھے، احتجاج شروع ہوا اور تھوڑی دیر میں وہاں نہ توپ تھی اور نہ وہ کمانڈر، سب بھوکوں کی نذر ہو گیا۔
موجودہ حکومتی اکابرین کو احساس ہی نہیں کہ آج وہ آتش فشاں کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ ان کا وقت ختم ہو چکا، کیونکہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ ختم ہو رہا ہے۔ وہ کسی توپ کے چلنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔خیریت فقط بجٹ تک تھی۔اس مایوس کن بجٹ کے بعد کسی کو کسی بھلائی کی امید نظر نہیں آ رہی۔ لگتا ہے وقت کا پہیہ نہیں، بیلنا حرکت میں آنے کو ہے۔ جس طرح مہنگائی نے لوگوں کو نچوڑا ہے۔ سب کرپٹ اور نا اہل اس بیلنے میں پوری طرح نچوڑے جائیں گے یہی مکافات عمل ہے۔آپ کو داد دیتا ہوں کہ اپوزیشن بڑی محنت کے باوجود جو کام نہیں کر سکتی تھی،آپ اور آپ کی ٹیم نے اپنی نااہلیوں کے سبب وہ خود کر لیا ہے۔ افسوس صد افسوس۔آپ کے ساتھ جو ہو سو ہو۔ ہمارے بھی سارے خواب……وہ کیا ہوئے۔