143

انسانیت کے خلاف بدترین جرائم

آج 10دسمبر ہے۔ جگہ جگہ سیمینارز ، جلسے، جلوس،احتجاج ہو رہے ہیں۔اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کایونیورسل ڈیکلریشن10دسمبر 1948ء میں جاری کیا جس میں مساوات، انصاف اور انسانی عظمت کے لئے کھڑے ہونے کا اعلان کیا گیا۔انسانی حقوق کے لئے آج اقوام متحدہ اور نوبل انعام دیئے جائیں گے۔73سال گزرنے کے بعد بھی دنیا بھر میں طاقت ور، ارباب اختیار اور قابضین سختی سے عوام پر بدترین مظالم ڈھا رہے ہیں۔ نسل کشیاں کی جا رہی ہیں۔ ریاستی دہشتگردی ہو رہی ہے۔سر فہرست بھارت اور اسرائیل ہیں جو 74سال سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے انسانی اور قدرتی وسائل کا استحصال کرتے ہوئے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دونوں مل کر عوام کش کارروائیاں کر رہے ہیں۔سابق امریکی صدر ٹرمپ نے مقبوضہ بیت القدس کو اسرائیل کا مرکز تسلیم کر کے ،گولان پر اسرائیلی تسلط جائز قرار دے کر، اپنے سفارتخانے کی منتقلی،  بھارت کو جدید اسلحہ سپلائی، نریندر مودی سے ملاقات کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، یہ سب قابضین کی جارحیت اور قتل عام کی حمایت ہے۔جس سے طاقت ور اور جارحیت پسند دنیا کے رحجان اور قتل ہوتی انسانیت کی بےبسی کی عکاسی ہوتی ہے۔طویل ترین لاک ڈائون کی آڑ لے کر بھارتی قابض فورسز کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔

7اکتوبر2021کو بھارتی فورسز سی آر پی ایف نے ایک ناکہ پر نہ رکنے کے الزام میں 28سالہ کار نوجوان سوار پرویز احمد کو گولیاں مار کر شہید کیا۔جب کوکر ناگ ، جنوبی کشمیر کے سیاسی اور سماجی کارکن طالب حسین نے سوشل میڈیا پر اس قتل کے خلاف احتجاج کیا تو اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارتی ٹیم سے میچ جیتا۔ بھارتی ریاستوں اور مقبوضہ کشمیر میں لاتعداد نوجوانوں کو پاکستانی فتح کا جشن منانے پر کالے قوانین کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیاہے۔انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی پروینہ کے گھر پر بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی چھاپے مار رہی ہے تاکہ اسے خوفزدہ کر سکے۔22نومبر2021کو کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے دو دہائیوں سے کام کرنے والے42سالہ خرم پرویز کو حراست میں لے کر کالے قوانین کے تحت قید کیا گیا۔2019سے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اڑھائی ہزار کشمیریوں کو قید کیا گیا۔ جن میں دو ہزار اب بھی بدنام زمانہ بھارتی جیلوں اور انٹروگیشن سنٹروں میں قید ہیں۔
  سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کا اعتراف ہے کہ مقبوضہ وادی کے کنن پوش پورہ دیہات میں وردی پوش بھارتی فوجیوں نے بستی کے محاصرے کے دوران اجتماعی زیادتی کی اور وہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔بھارتی فوج کے آگے وزیر خارجہ نے اپنی بےبسی کا اعتراف کیا۔ 23فروری 1991ء کو رات کے گیارہ بجے بھارتی فوج کی بدنام زمانہ 4راجپوتانہ رائفلز نے بستی کو محاصرے میں لیا۔ فوجیوں نے مقامی آبادی کے مطابق ایک سو خواتین کو اجتماعی درندگی کا نشانہ بنایا۔ ان کی عمریں8سے 80سال کی تھیں۔اس وقت کے  ڈپٹی کمشنر ایس ایم یاسین نے اپنی رپورٹ میں تصدیق کی کہ بھارتی اہلکاروں نے بندوق کی نوک پر درندگی کا مظاہرہ کیا۔ ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ کے بعد چیف جسٹس جموں و کشمیر ہائی کورٹ مفتی بہائوالدین فاروقی نے  فیکٹ فائینڈنگ مشن کنن پوش پورہ بھیجا۔ اس نے تصدیق کی کہ 53خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس کے باوجود فوج کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہ کی گئی۔ بھارتی فوج نے پریس کونسل آف انڈیا سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ کونسل کی ایک ٹیم نے وادی کا دورہ کیا اور اجتماعی زیادتی کو جھوٹ قر ار دے دیا۔ دہشت گرد فوج کو بے قصور ثابت کر دیا۔یہ بھارتی میڈیا کا کشمیر کے حوالے سے منافقانہ طرز عمل اور جانبداری ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے جب آواز بلند کی تو پریس کونسل آف انڈیا کی رپورٹ ہی جھوٹی ثابت ہوئی لیکن آج تک کسی بھی فوجی کو سزا نہ دی گئی، نہ ہی پریس کونسل کی جھوٹی رپورٹ کے خلاف کسی نے کوئی لفظ ادا کیا۔چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کپواڑہ جے اے جیلانی نے  22سال بعد کنن پوش پورہ کیس کو دوبارہ کھولنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس کیس کی انکوائری ایس ایس پی یا اس سے بڑے رینک کا پولیس افسر کرے۔ عدالت نے تحقیقات تین ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا ۔ عدالت نے انسانی حقوق کے کارکن پرویز امروز کی درخواست پر انکوائری کا حکم دیا مگر ابھی تک کچھ نہ ہوا۔وہی پرویز امروز ایک بار پھر انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کے جرم میں بھارتی جیل میں قید ہیں۔2011ء کو ریاستی انسانی حقوق کے ادارے نے بھی کیس کو ازسرنو کھولنے کی درخواست دی۔ آج تک راجپوتانہ رائفلز کے 125اہلکاروں کی نہ تو شناختی پریڈ کی گئی اور نہ ہی پولیس نے ان سے تفتیش کی ۔خواتین کی عزتیں پامال کرنے کا جنگی حربہ بھی بھارت کا سنگین جنگی جرائم کی ایک مثال تھا۔(جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں