گزشتہ پیر کے روز ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لوئی وِل بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام محمد علی کلے انٹرنیشنل ایئر پورٹ رکھ دیا گیا۔یہ کرہئ ارض کے عظیم ترین ہیوی ویٹ مسلمان مُکہ باز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین انداز تھا۔ تقریب میں محمد علی کلے کے خاندان کے علاوہ شہریوں اور مداحوں کا ایک جم ِ غفیر موجود تھا۔ ملک کے مختلف شہروں سے رہنماؤں کے تہنیتی پیغامات موصول ہوئے اور بیسویں صدی کے معروف ترین کھلاڑی کا ذکر انتہائی چاہت اور احترام سے ہوتا رہا۔ 17جنوری 1942ء کو امریکی شہر لُوئی وِل میں پیدا ہونے والے اپنے بچے کا نام والدین نے کاشیس مارسیلس کلے رکھا۔ عسرت نے گھر کا دروازہ دیکھ رکھا تھا، چنانچہ لڑکپن میں کاشیس کلے کو پڑھائی ترک کرنا پڑی۔
اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود میں مگن رہتا۔ ایک دن اُس کی بائیسکل چوری ہو گئی۔ ساتھ ہی واقع ایک سپورٹس کلب کے منیجر سے اُس نے شکایت کی تو اُس نے کاشیس کو مُکہ بازی سیکھنے کا مشورہ دیا اور اُسے یقین دِلایا کہ مُکہ باز بن کر وہ اپنا بائیسکل چرانے والے کی خوب پٹائی کر سکے گا۔ بات بچے کے دِل کو بھا گئی، چنانچہ وہ ہر روز اسی کلب میں گھونسے مارنے کی مشق کرنے لگا۔ تندرست بدن انتہا کا پھرتیلا تھا۔14سالہ نوآموز نے ہفتوں میں وہاں مشق کے لئے آنے والے دوسرے مُکہ بازوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ وقت کے ساتھ اس کی مہارت اور تُندی مَیں اضافہ ہوتا رہا۔ پھر مختلف رکاوٹیں عبور کرتا1960ء کے روم اولمپکس میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے پہنچ گیا اور مُکہ بازی کے لائٹ ہیوی ویٹ مقابلے میں سونے کا تمغہ جیت کر لوٹا۔ اگلے تین برس اُس نے انتہائی جانفشانی سے اپنے بدن کی تربیت کی اور مختلف مُکہ بازوں کو ہرا کر ہیوی ویٹ باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔بالآخر اس کی زندگی کے سنہری باب کا آغاز 25فروری 1964ء کو ہوا جب اُس نے خونخوار ہیوی ویٹ مُکہ باز عالمی چیمپئن سونی لِسٹن کو آٹھویں راؤنڈ میں ہرا دیا۔ یہ مُکہ بازی کی تاریخ کا ایک حیرت انگیر واقعہ تھا۔ صرف11فیصد تماشائی توقع کر رہے تھے کہ کاشیس مقابلے میں فتح یاب ہو گا۔
فاتح کا ڈنکا چاروں طرف بجنے لگا،اس کے فوراً بعد کاشیس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنا نام محمد علی رکھا۔امریکہ اور یورپ میں کہرام مچ گیا۔ نیا نام قبول نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس کے مقابلوں میں اُترنے والے حریف مُکہ باز اُسے پرانے نام سے پکارتے تو وہ ان کی خوب پٹائی کر کے اُنہیں لہولہان کر دیتا۔ ماہرین نے بجا طور پر محمد علی کلے کو تاریخ کا عظیم ترین مُکہ باز کہا ہے۔ یوں تو اُس نے اپنی پھرتی، جسمانی طاقت اور مہارت سے دُنیا بھر کو متحیر کیا،لیکن دو مخالفین سے اُس کے مقابلے سنہری حروف سے لکھے جا چکے ہیں۔ 30اکتوبر1974ء کو وسطی افریقی ملک زائرے میں اس کا اُس وقت کے ہیوی ویٹ چیمپئن جارج فورمین سے رَن پڑا۔ مقابلے سے قبل مُکہ بازی کے ماہرین23سالہ جارج فورمین سے التجا کر رہے تھے کہ وہ 32سالہ محمد علی کلے کو ہرائے ضرور، لیکن اس کی جان کے لئے خطرہ نہ پیدا کرے۔
اس جنگ کو ایک ارب لوگوں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا اور اسے بجا طور پر20ویں صدی کا عظیم ترین مقابلہ کہا گیا۔ محمد علی کلے نے اپنے تجربے، مہارت اور پُھرتی کا استعمال کرتے ہوئے فورمین کو شکست دے کر دُنیا کو ششدر کر دیا۔ دوسرا مقابلہ سخت جان جو فریزیر سے منیلا میں ہوا تھا۔ محمد علی کلے اپنی حاضر جوابی کے لئے معروف تھے۔انہوں نے اس مقابلے کو ”گوریلا اِن منیلا“ کا نام دے دیا۔اشارہ جو فریزیر کی طرف تھا، جس کا رنگ کالا اور نقوش خاصے بھدے تھے۔ دونوں حریف ایک دوسرے پر مسلسل 14راؤنڈ مُکے برساتے رہے۔ فریزیر کی بائیں آنکھ کے نیچے گال سے خون جاری ہو گیا۔ اس کا چہرہ محمد علی کلے کی مسلسل ضربات سے سوج گیا، چنانچہ14ویں راؤنڈ کے اختتام پر اس نے اپنی ہار مان لی۔ محمد علی کلے فاتح ٹھہرے۔ بعد میں انہوں نے اس مقابلے کو موت کی طرح خونخوار اور جاں گسل قرار دیا تھا۔ تین بارعالمی چیمپئن بننے والے محمد علی کلے نے ماہرین کے مطابق زندگی میں دو لاکھ ضربات مختلف مقابلوں میں سہی تھیں۔چنانچہ جب وہ1981ء میں کھیل سے ریٹائر ہوئے تو پارکنسزم کا مرض ان کے اعصاب کو اپنی قاتل گرفت میں لے چکا تھا۔ زبان میں لُکنت، ہاتھوں میں رعشے اور چال میں لڑکھڑاہٹ نے رفتہ رفتہ انہیں گھر کے گوشہئ تنہائی میں محدود کر دیا۔ 3جون 2016ء کو موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔9جون کو اُن کے آبائی شہر لوئی وِل میں تدفین ہوئی۔ معروف سیاست دان، کھلاڑی اور مسلم رہنما جنازے میں تھے۔ جب سابق صدر بل کلنٹن اور مُکہ باز جارج فورمین نے مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا تو آنکھیں نمناک ہو گئیں۔
محمد علی کلے سے مجھے شرفِ ملاقات اپریل 1985ء میں ریاض میں وامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں حاصل ہوا تھا۔ ”اقلیاتِ مسلمہ“ کے نام سے ہونے والے سہ روزہ اجتماع میں متعدد معروف شخصیات مدعو تھیں۔ محمد علی بھی تھے۔ مَیں سعودی ٹیلی ویژن کے لئے مقررین کے انٹرویو کر رہا تھا۔کینیڈا کی سینیٹ میریز یونیورسٹی کے معروف مبلغ ڈاکٹر جمال بدوی، مشہورِ زمانہ تقابلی مذاہب کے عالم شیخ احمد دیدات اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن کے اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر جان اسپوزیٹو کے ساتھ بات چیت میں بہت لطف آیا۔ محمد علی کلے کے گرد ہر وقت ایک اژدہام رہتا۔ جب ان سے کانفرنس ہال میں انٹرویو نہ ہو سکا تو انہوں نے رائے دی کہ جس ہوٹل میں ان کا قیام تھا مَیں وہاں مغرب کے بعد ان سے مل لُوں۔چنانچہ اُسی روز کیمرہ مین کے ہمراہ ہوٹل پہنچ گیا۔ ان کا کمرہ بند تھا، نیچے پارکنگ میں ہم انتظارکرنے لگے۔اِسی دوران ان کے ساتھی بنڈینی براؤن نے ہمیں دیکھ لیا اور پارکنگ میں کھڑی ایک گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔ محمد علی اُس گاڑی میں سو رہے تھے۔
مداحوں نے انہیں اتنا زچ کر رکھا تھا کہ انہیں آرام کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ بنڈینی براؤن نے اُنہیں ہمارے بارے میں مطلع کیا تو وہ بجلی کی تیزی سے گاڑی سے باہر آئے اور ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔ یہ ان کا احساسِ ذمہ داری تھا یا ہمارے لئے احساسِ ہمدردی! رت جگے کے مارے محمد علی کلے میرے ساتھ کیمرے کے سامنے آ بیٹھے اور اگلا ایک گھنٹہ ان کی لُکنت بھری آواز میرے ذہن میں گزشتہ دو دہائیوں کی یادوں کے چراغ جلاتی رہی۔انٹرویو کے اختتام پر انہوں نے ایک طرف رکھے کاغذوں کے انبار میں سے ایک کتابچہ اٹھایا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کر کے میری طرف بڑھا دیا۔ کتابچے کا عنوان تھا ”واٹ از اِسلام“۔ آج بھی محمد علی کلے کے دستخطوں والا وہ کتابچہ میرے لئے ایک متاعِ عزیز ہے۔ وہ ایک مُکہ باز تھے۔ تاریخ ساز تھے۔ مبلغِ اسلام تھے،مخیر انسان تھے، عالم اسلام کی شان تھے۔ کھیل کی آن تھے۔ بازیچہ ئ عالم میں کوئی محمد علی کلے جیسا پیدا نہ ہو گا۔