مَیں عید کی نماز پڑھنے گھر سے نکلا۔ مسجدوں سے تکبیر کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ کہیں نماز ادا ہو چکی تھی اور کہیں ہونے والی تھی۔ بچے بوڑھے اور جوان مساجد کی طرف جا رہے تھے اور جو نماز ادا کر چکے تھے اُن کی واپسی ہو رہی تھی۔ میرے ذہن میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مختلف ممالک میں منائی ہوئی عیدوں کے مناظر گھومنے لگے۔ قاہرہ کی مختلف مساجد میں ادا کی گئی نمازیں یاد آئیں۔ قاہرہ کو مسجدوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ویسے اہل ِ مصر اسے ’اُم الدنیا‘ یعنی دُنیا کی ماں کہتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر تاریخی مساجد شہر کے قدیم حصے میں واقع ہیں۔قریب ہی ایک بہت بڑا مقبرہ بھی ہے جہاں امام شافعی ؒ کا مزار ہے۔ لوگ عید کے دن نماز سے پہلے اپنے اعزہ کی قبروں پر حاضری دینے آتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے مقبرہ میں رہائش اختیار کی ہے اور اپنے عزیزوں کو گھروں کے نیچے دفناتے ہیں۔ کسی اور جگہ موت و حیات کے رشتے کی حقیقت اتنی عیاں نہیں جتنی ’مصرِ قدیمہ‘ کے قبرستان میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا ہے:
ایک ٹہنی کے پھول ہیں دونوں
موت اور زندگی میں ناتا ہے
قدیم قبرستان کے قریب ہی مسجد الرفاعی ہے، جہاں شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی، شاہ فاروق کے خاندان کے پہلو میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ تاریخ کا ستم دیکھئے کہ ایران کے شہنشاہ کو مصر میں اور پاکستان کے صدر سکندر مرزا کو ایران میں دفن ہونے کے لئے دو گز زمین ملی۔ دونوں اپنے اپنے وطن میں دفن ہونے سے محروم رہے۔ دُنیا کی قدیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ الازہر کی مسجد ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے۔الازہر کے سامنے خان الخلیلی بازار کے احاطے میں مسجدِ حسین ہے جس میں نواسہئ ؓ رسول کا سرمبارک مدفون ہے۔قدیم شہر میں ایک مسجد فاتح مصر عمرؓ بن العاص کے نام سے مشہور ہے۔ مجھے مصر میں اپنے قیام کے دوران کئی مساجد میں عید کی نماز ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہاں کی مساجد میں عید کے دن تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ مصری بڑی تعداد میں آتے ہیں اور خشوع،و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں۔ دمشق کے تاریخی مسجد اُمیہ میں نمازیوں کا جوش و خروش بھی قابل ِ دید ہوتا ہے۔
یہ مسلمانوں کا چوتھا مقدس مقام ہے،جہاں ذکریا علیہ السلام دفن ہیں۔ ایک کونے میں وہ جگہ ہے جہاں امام حسینؓ کا سر مبارک رکھا گیا تھا۔کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہیں اُتریں گے۔
لندن میں ریجنٹ پارک مسجدکا خیال آیا۔ یہ ایک تاریخی مسجد ہے اور عرصہ تک دنیا بھر سے آئے مسلمان یہاں عید کی نماز ایک ساتھ ادا کرتے رہے تاہم اب برطانیہ میں بھی مسلمان عید کے معاملے میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ا ختلافات جب زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو مساجد میں پولیس بلائی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کو گتھم گتھا ہونے سے روکے۔ بدقسمتی سے عید کے دن پر اختلاف کا مسئلہ نہ صرف یورپ میں پھیل چکا ہے، بلکہ اب امریکہ میں بھی دو عیدیں ہوتی ہیں۔ اختلاف ہونا بُرا،نہیں لیکن اِسے برداشت نہ کرنے میں برائی ضرور ہے۔ مَیں نے ماسکو میں ایک دفعہ بنگلہ دیش کے سفارت خانے کے اندرعید کی نماز پڑھی اِس لئے کہ تاتاریوں کی مسجد میں مشکل سے جگہ ملتی تھی اور وہاں عید کے دن نمازی مسجد کے باہر سردیوں میں برف پر کھڑے ہو کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے تھے۔ آ ہنی پردے کے پیچھے چھپے روس میں مذہب کو افیون کہا گیا تھا اورعبادت گاہیں بند کر دی گئی تھیں۔1917ء میں روس میں 25ہزار مساجد تھیں،جو 1970ء میں کم ہو کر 500رہ گئی تھیں، لیکن ماسکو میں تاتاریوں کی مسجدقائم و دائم رہی۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ مذہب پہ وہ پابندیاں نہیں ہیں جو سویت یونین عہد میں تھیں۔
جو عیدیں میں نے دیار حرم میں گزاریں اُن کا حال چند لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ حقیقت ہے کہ وہاں گزرا ہر لمحہ میرے لئے روحانی لحاظ سے عید سے کم نہ تھا۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھاکہ تکبیر کی صدائیں مدہم ہونے لگیں۔ لوگ صفیں درست کرنے لگے۔ نماز ادا کرکے گھر پہنچا تو خبروں میں دیکھا کہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں حالات کشیدہ تھے۔ کئی لوگ گھروں سے نہ نکل سکے۔مجھے یا د آیا کہ عید کے دن سوڈانی بڑے جوش و خروش سے گھروں سے نکلتے، صاف ستھرے سفید کپڑے اور پگڑیاں پہنے، دعائیں پڑھتے ہوئے مسجد وں کا رُخ کرتے۔ مسجدوں میں جگہ کم پڑتی تو باہر صفیں بچھا کر نماز ادا کرتے۔کیا ہی روح پرور منظر ہوتا تھا؟نماز کے بعد وہ ایک دوسرے کے گھر جا کر عید کی مبارکباد دیتے۔ میزبان اپنی استطاعت کے مطابق مہمان کی تواضع کرتا۔اکثر سوڈانی اگر چہ غریب ہیں، لیکن اُن کے دل اُتنے ہی امیر ہیں۔ جوکچھ گھر میں ہے مہمان کے لئے حاضر ہے۔ عید کے دوسرے دن خرطوم میں صورتِ حال مزید بگڑ گئی۔ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال ہُوا اور کئی جانیں ضائع ہوئیں۔ عید کے دِنوں میں یہ سانحہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔سوڈان کے علاوہ دُنیا کی دوسرے حصوں میں بھی مسلمان بیشمار مسائل کا شکار ہیں۔ خدا اُن کو اپنے مسائل حل کرنے کی توفیق دے تاکہ اُمت ِ مسلمہ ایک ساتھ حقیقی عید منا سکیں۔