دیباچہ
کتابِ عورت ایک داستانِ حیاتِ ابدی ہے … کائنات کو خلق کرنے سے پہلے خالق اکبر و مطلق نے ضرور سوچا ہو گا اگر دنیا بنانی ہے اور مرد خلق کرنا ہے تو پہلی ضرورت کیا ہے اُس وقت خالق نے عورت کا نام تجویز کیا ہو گا … !
بے شک خالق نے اول آدم نام کا ایک شخص خلق کیا اور وہ ہدایت یافتہ تھا مگر ہدایت کے لئے اُس کے سامنے کوئی نہ تھا ‘ پھر خالق نے اُس میں سے اُس کے لئے ایک مخلوق پیدا کی جس کا عنوان عورت اور نام حوّا رکھا … مگر نا آدم اُس وقت باپ تھا اور نہ عورت ماں تھی … پھر خالق نے عورت اور مرد کا نام خاوند اور بیوی رکھا … پھر اولاد نام کی ایک شئے اُن میں سے پیدا کی اور اِن دونوں کی محبت اُس میں رکھ دی … پھر اُن ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بے شمار مخلوق خلق کی جو اُن کی خدمت کرے ۔
جب آدم کو پیدا کیا تو فرشتوں کو کہا اِسے سجدہ کرو … اے خدایا ! بھلا ایسا کبھی ہوا ہے کہ جو تجھے سجدہ کرے وہ تیرے علاوہ کسی کے سامنے جھکے مگر حکم خدا تھا نور نے خاک کے سامنے سجدہ کیا اور وہ سرخرو ہوئے ۔
اے خدایا ! پھر نسلِ آدم کے لئے جب تجھے ضرورت پڑی تو ‘ تو نے اُس میں سے اُس جیسی ایک مخلوق پیدا کر کے اُس میں ویسا ہی جوہر لطیف رکھ دیا جیسا مرد میں رکھا … واہ رے خدایا ! پھر تیری حکمت نے اُن میں سے ایک ایسا جوہر پیدا کیا کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر زندہ رہنا بے معنی سمجھنے لگے اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا ۔
عورت کیا ہے ؟ … یہ وہ کھلی کتاب ہے جسے بار بار پڑھو گے تو نئے نئے مفہوم ظاہر ہوں گے … اِس کے ہر باب میں نئے نئے عنوان ہیں مگر یہ کہانی بڑی خوبصورت ہے اِس کے بغیر دنیا بے معنی اور بے رنگ ہے … یہ محبت اور زندگی کی طلب کا سر چشمہ ہے ۔
عورت کی زندگی کے تمام حصے بڑے پرُ لطف ہیں وہ ماں ہو ‘ بیٹی ہو ‘ بہن ہو یا بیوی ہو … مگر سوچ لو سب کا تقدس یکساں ہے ‘ بیوی نہ ہو تو ماں نہیں بنتی اور ماں نہ ہو تو بیٹی ‘ بہن اور بھائی نہیں بنتے مگر موجودہ معاشرہ میں بیوی کی حیثیت کیا ہے نا عوذ باللہ ” پاؤں کا جوتا “… خدا کرے وہ پاؤں اپاہج ہو جائیں … اِس عورت کو جب خدا ماں بناتا ہے تو اُس میں پاؤں میں جنت رکھ دیتا ہے ۔
عورت نسلِ انسانی کی ماں ہے ‘ ماں ‘ ماں … ماں صرف ماں ہوتی ہے اُس کی نہ کوئی قومیت ہوتی ہے اور نہ ہی نسل نہ ذات … وہ محبت کی دیوی ہوتی ہے خدا نے بھی اِس کی محبت کا اقرار کیا ہے اور ماں بھی ایک عورت ہے ۔ ماں کے پاؤں میں بے شک جوتا نہ ہو مگر جنت ضرور ہے … باپ کے سر پر لمبا شملہ اور پاؤں میں بہترین جوتا ‘ شاہانہ لباس مگر وہ ذہنی اور روحانی طور پر عورت کا محتاج ہے ۔ اِس سارے ٹھاٹھ باٹھ کا تاج عورت کے سر جاتا ہے جو اُس کی عزت کی پاسبان ہے ‘ جو اُس کے بچوں کی ماں ہے ‘ جو مرد کی روحانی اور جسمانی تسکین کا باعث ہے … لہٰذا اِس ” کتاب عورت “ کا احترام کرو اِسے بالائے طاق نا رکھو … نوکر سے کم تر … !
پیغمبروں کو بھی عورت کی ضرورت رہی … عورت نے پیغمبروں کو جنم دیا … پیغمبروں کو بھی خدا نے بیٹیاں دیں اور بیٹے دیئے … عورت کی حیاء میں سے پیغمبروں نے جنم لیا … عورت نے ہی اِن کی پرورش کی ‘ لوریاں دیں اُن کے لبوں کو بوسہ دیا ‘ اُن کی اُن پیشانیوں کو چوما جو خدا کے روبرو سجدہ ریز ہوئیں … عورت ہی کے سینے سے انہیں غذائے پاکیزہ اور لذیذہ عطا کی … ہر پیدا ہونے والا شخص ایک عورت کا محتاج ہے ‘ عورت کے جسم کا حصہ ۔
او لوگو ! او ہوس پرستو ! او بد نصیب بد قماشو اور بدمعاشو ! تم نے عورت کو رسوا کیا ‘ اُسے دنیا کی منڈی میں فروخت کیا ‘ اُسے زندہ زمین میں دفن کر دیا اُس کا گناہ کیا ہے … کیا خدا نے ہی اُسے عورت نہیں بنایا … کیا تم اُس میں سے پیدا نہیں ہوئے … کیا تم ہی اُس کی رسوائی کا باعث نہیں ہو … کیا تم ہی اُسے سر بازار نہیں لے آئے … کیا تم نے ہی اُسے بے لباس دیکھنے کی تمنا نہیں کی …
او مردِ نوخیز ! سمجھو وہ پہلے زوجہ محترمہ ہے پھر تمہارے بچوں کی ماں ہے … ماں پھر ماں … لفظ ماں کا ہی احترام کرو ۔ ماں کی زندگی رب نے عجیب لکھی ہے … اپنی جوانی … طاقت … حُسن اولاد کو پالنے میں صرف کر دیتی ہے … اِسی ریاضت میں بوڑھی ہو جاتی ہے … مگر اولاد کو جوان دیکھ کر اپنی تھکن دور کرتی ہے ۔
عورت ایک ہے مگر اِس کے روپ چار ہیں اور ہر روپ میں ایک عورت ہے … ہر عورت کا ایک جذبہ ہے … رشتہ ہے … مقام ہے … احترام ہے … حیاء ہے … وفا ہے … ذمہ داری ہے مگر عورت کا مقام اصل اور حقیقی چادر اور چاردیواری ہے ۔
عورت معاشرہ کا مرکزی کردار ہے … مرد اِس کے گرد بلکہ سارا معاشرہ طواف کی حالت میں ہے ۔ عورت کے کس رشتہ کو مقدس قرار دیا جائے یہ امتیاز انتہائی مشکل ہے … جس نظر سے بھی دیکھا جائے اُس میں ایک تقدس ہے … صرف فرق ہے تو نظر کا ورنہ سب عورتیں جبلتی طور پر ایک جیسی ہیں … یہ جنس فاخرہ کا اپنا کمال ہے اور خدا کی حکمت اور دانائی کا کامل نمونہ … !! نظام قدرت میں مرکزی کردار عورت ہے ۔
عورت دراصل قربانی کا دوسرا نام ہے … یہ روح پہ حکمرانی کرتی ہے مگر خود بے روح ہے … یہ مرد کے لئے کھیتی قرار دی گئی ہے … آنکھ ایک ہی ہوتی ہے مگر اُس میں پایا جانے والا خدا کا نور عورت کو مختلف انداز میں دیکھتا ہے … ہر عورت کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے ۔ کچھ کا رشتہ خدا بناتا ہے اور توڑتا نہیں اور کچھ خدا بناتا ہے مگر انسان اُسے توڑتا ہے … وہی رشتہ سب سے مضبوط تر اور سب سے کمزور تر ہوتا ہے وہ جسے عرف عام میں لوگ ” جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں “ کہتے ہیں تو پھر وہ زمین پر ٹوٹتے کیوں ہیں … انہیں رویوں پر میں نے کتاب ” عورت “ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے … !
جیسے جیسے میرے خیالات نے سفر کیا ہے اور عورت کے رویوں کا جائزہ لیا ہے ویسے ویسے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ضروری نہیں کہ میرا قاری میرے ساتھ اتفاق کرے مگر سوچے گا ضرور کہ عورت نام کا مفہوم کیا ہے ۔
جب عورت کا نام آتا ہے تو اُس کا مفہوم زندگی کا ساتھی لیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے عورت بیوی کے روپ میں ہے پھر ماں کے روپ میں پھر بہن اور بیٹی کے روپ میں مگر جب اِن سب کو ملایا جائے تو اِس کا نام ناموس ہے … ناموس سب کی سانجھی ہوتی ہے ۔
عورت کا سب سے نازک روپ بیوی ہے جس کا مرد کی زندگی میں بڑا اہم کردار ہے بلکہ دنیا کو خلق کرنے کا مقصد یہی رشتہ ہے اور سب سے زیادہ تلخ اور شیریں بھی یہی ہے … بن جائے تو ٹوٹتا نہیں اور ٹوٹ جائے تو بنتا نہیں … پیار اور محبت بھی اِسی رشتہ کی تخلیق ہے یہی مرد کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے … اِس کے بغیر کوئی گھر گھر نہیں … یہ افزائش نسل کی ضمانت ہے ۔ باقی سارے رشتے اپنا مفہوم خود رکھتے ہیں … بیوی کا مطلب زندگی کی روح … ایک کشش ثقل … ذہن پر سوار کوئی حقیقت … !!
عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا اور سارے گھر اِس کے اپنے ہیں کیونکہ اِس کے بغیر کوئی گھر ‘ گھر نہیں ہوتا …رہائش گاہ اور قیام گاہ ہیں … عورت معاشرہ میں امن کی ضمانت ہے اگر چائے تو سرزمین پر کوئی گناہ سرزد نہیں ہو گا … یہ اِس کے کردار کا حسن ہے ۔
میں نے اپنی تمام تحریروں میں جہاں اور جیسے عورت کا ذکر کیا ہے انہیں یک جاہ کر کے اِس کا عنوان ”عورت “ رکھا ہے ۔
میرے قاری کو یہ اجازت ہے وہ اِس پر اپنی رائے قائم کرے ‘ تنقید کرے ‘ بہتر علم رکھے بحرحال اِس امر سے میرا قاری انکار نہیں کر سکتا کہ اُس کی زندگی عورت کے طواف میں رہتی ہے ‘ ورنہ زندگی کے باقی رہنے کا جواز ختم ہو جائے … انسان سب سے زیادہ عورت کے بارے میں سوچتا ہے خدا نے اِس لئے اِسے بنایا تھا ۔ عورت ہی نے بابا جان کو جنت سے نکلوایا تھا … اِس کی بات ضرور مانو مگر عمل اتنا کرو جتنا آپ کی عقل کہتی ہے ۔ عورت کی عقل استعمال مت کرو یہ ناقص العقل ہوتی ہے اور اِس کے فیصلے مرد کے مقابلہ میں کمزور ہوتے ہیں مگر اِس سے مشورہ ضرور کرو اگر زندگی میں آسانیاں چاہتے ہو اور امن و اماں کی ضرورت ہے ۔
میری اِس کتاب ” عورت “ میں جیسے جیسے میں نے دیکھا ‘ سنا اور پڑھا ویسے ویسے دیانتداری سے اِس کے کردار پر اپنے نظریات لکھ دیئے ہیں ۔ اب پڑھنے والے پہ منحصر ہے کہ اُسے کس نظر سے دیکھتے ہیں ‘ پڑھتے ہیں ‘ سوچتے ہیں ‘ میں نے اپنی رائے کتاب عورت پر قائم کر دی ہے اختلاف رائے سب کا حق ہے ۔
عورت کے رویوں ہی جنت ہے اور اِس کے رویے ہی جہنم مگر اِس کے بغیر نہ دنیا ہے اور نہ ہی مرد کی زندگی … !!
آپ کو میری اِس کتاب پر رائے دینے کا پورا پورا حق ہے اور میں آپ کا مشکور ہوں گا … ہو سکتا ہے آپ کا روحانی سفر مجھ سے بہتر ہو بحرحال میری روح نے جو کچھ عورت کے بارے میں محسوس کیا میں نے تحریر میں اُس کا اظہار کر دیا ہے کون کس طرح سوچتا ہے اِس سے میری کوئی غرض نہیں … بحرحال میرے ذمہ جو پیغام تھا وہ میں نے دے دیا ہے … فی امان اللہ … !!!
قلب حسین وڑائچ