ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’الذین اٰتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم‘‘ جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ یعنی انہیں رسول اللہؐ کو پہچاننے میں کوئی دیر نہیں لگی مگر انکار کر دیا جس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ ’’حسدًا من عند انفسھم‘‘ انہوں نے حسد کی وجہ سے ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ وہ نہ صرف نبی آخر الزمانؐ کا انتظار کر رہے تھے بلکہ ’’کانوا یستفتحون علی الذین کفروا من قبل‘‘ اپنے مخالفوں کے خلاف نبی اکرمؐ کی برکت سے فتح کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ حسد اس بات کا تھا کہ انہیں یہ امید تھی کہ آخری پیغمبر ان کی قوم میں آئیں گے مگر وہ بنی اسرائیل کی بجائے بنو اسماعیل میں مبعوث ہوئے جو یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے انکار کی بڑی وجہ بن گیا۔ تاریخ و حدیث کے مختلف شواہد اس کی تائید کرتے ہیں کہ اہلِ کتاب اور اہلِ علم نے سابقہ کتابوں میں بیان کی گئی علامتوں کو دیکھ کر نبی اکرمؐ کو پہچان لیا تھا، ان میں سے دو چار کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔★سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بارہ سال کی عمر میں تھے کہ چچا محترم جناب ابو طالب انہیں شام کے تجارتی سفر میں ساتھ لے گئے، راستہ میں ایک مقام پر بحیرا نامی عیسائی راہب نے پہچان لیا اور جناب ابوطالب کو مشورہ دیا کہ وہ انہیں شام نہ لے جائیں، وہاں کے یہودی بھی میری طرح پہچان لیں گے اور ان سے برداشت نہیں ہو گا اس لیے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، چنانچہ چچا محترم انہیں وہیں سے واپس مکہ مکرمہ لے آئے۔
★نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو یہ واقعہ خلافِ توقع اور خلافِ معمول ہونے کی وجہ سے گھبراہٹ کا طاری ہونا فطری بات تھی جس پر ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے انہیں نہ صرف خود تسلی دی بلکہ اپنے خاندان کے ایک بزرگ ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی عالم تھے ۔ انہوں نے نبی اکرمؐ سے غارِ حرا کا واقعہ سن کر کہا کہ یہ وہی وحی ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام پر وادی طور میں نازل ہوئی تھی، اس کے ساتھ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب آپ کو مکہ والے یہاں سے نکلنے پر مجبور کریں گے تو میں اگر اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔
ہجرت حبشہ کے بعد نجاشی بادشاہ نے مسلمانوں کو بلا کر ان کا موقف سنا تو اس دوران یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ان مسلمانوں کا حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں موقف عیسائیوں کے عقیدہ کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کے ترجمان اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی حضرت جعفر طیارؓ تھے۔فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مریم و عیسیٰ علیہما السلام کے بارے میں قرآن کریم کی متعلقہ آیات نجاشی کے دربار میں تلاوت کر کے سنا دیں جس پر خود نجاشی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے کہا کہ حقیقت تو وہی ہے جو انہوں نے بیان کی ہے، اس کے بعد نجاشی نے مسلمانوں کو نہ صرف پورا تحفظ دیا بلکہ خود بھی ایمان قبول کر لیا۔
★پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو وہاں ان پر ایمان لانے والوں میں حضرت سلمان فارسیؓ بھی تھے جو عیسائی عالم تھے۔ ان کا تعلق فارس کے مجوسی خاندان سے تھا مگر عیسائیت قبول کر کے بہت سے اہلِ علم کے ساتھ طویل عرصہ گزار چکے تھے اور ان کی ہدایات پر اللہ کے آخری پیغمبر کی آمد کے انتظار اور تلاش میں تھے۔ انہیں کچھ لوگوں نے زبردستی پکڑ کر راستہ میں بیچ دیا اور کئی خاندانوں کی غلامی کرتے ہوئے یثرب کے ایک یہودی خاندان کے غلام کے طور پر قبا جا پہنچے جہاں نبی اکرمؐ ہجرت کے بعد کچھ عرصہ مقیم رہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ میں کئی روز تک عیسائی علماء کی بتائی ہوئی علامتوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں پرکھتا رہا اور بالآخر پہچان کر ایمان لے آیا اور حضور علیہ السلام کے خدام میں شامل ہو گیا۔
★اسی طرح بڑے یہودی عالم حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے بھی علامتوں سے پہچان کر اسلام قبول کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔
★اس سلسلہ میں تاریخ کی ایک اور اہم گواہی روم کے بادشاہ قیصر کی بھی ہے جو امام بخاریؒ نے تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دنیا کے بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت کے لیے خطوط لکھے تو ایک گرامی نامہ قیصر روم ہرقل کے پاس بھی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں روانہ کیا۔ قیصرِ روم نے اس موقع پر صورتحال معلوم کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کے کچھ لوگوں کو اپنے دربار میں بلانے کا اہتمام کیا جن میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بھی تھے جو اس وقت نبی اکرمؐ کے مقابلہ میں قریشِ مکہ کی قیادت کر رہے تھے۔ روم کے بادشاہ نے حضرت ابو سفیانؓ سے حضورؐ کے بارے میں مختلف سوالات کیے اور ان کے جوابات سن کر کہا کہ جو کچھ آپ نے بیان کیا ہے وہ صحیح ہے تو حضرت محمدؐ واقعتاً اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور میں خود ان کی آمد کا منتظر تھا۔ اس نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ مجھے اگر ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا تو میں ان کے پاؤں اپنے ہاتھوں سے دھلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہوں گا۔ مگر ایمان نہیں لایا جس کی وجہ خود بیان کی کہ مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ آخری نبی تم عربوں میں آجائے گا۔
یہ بات قرآن کریم کے ارشاد گرامی کی تائید کرتی ہے کہ اہلِ کتاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان تو لیا مگر حسد کی وجہ سے ایمان لانے سے انکاری ہوئے۔ یہ اس حوالہ سے تاریخ کی پرانی شہادتیں ہیں جبکہ آج بھی صورت حال یہی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مغرب کے بہت سے عیسائی اور یہودی دانشور نبی اکرمؐ کی تعریف میں کمی نہیں کرتے، خوبیاں بیان کرتے ہیں، کمالات کا تذکرہ کرتے ہیں اور تعلیمات کا حوالہ بھی دیتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ عربوں کے نبی تھے اور عربوں کے لیے تھے۔ ان میں سے کچھ دانشور اسلام کو صحیح مذہب کہہ دیتے ہیں اور قرآن کریم کو الہامی کتاب کہنے میں بھی بخل نہیں کرتے مگر اس اضافے کے ساتھ کہ یہ عربوں کے لیے تھے، عرب تہذیب تھی اور عرب ثقافت تھی۔ آج کے مغربی دانشوروں کا ایک طبقہ اسلام کو، قرآن کریم کو اور جناب نبی کریمؐ کو عربوں کے دائرے میں محدود بیان کر کے تمام تر خوبیوں کے اعتراف کے باوجود ایمان لانے اور تسلیم کرنے سے گریز کرتا ہے اور قرآن کریم کے اس ارشاد کی عملی تائید کر رہا ہے کہ جن کو ہم نے کتاب دی تھی وہ نبی آخر الزمانؐ کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں، انہیں پہچاننے میں غلطی نہیں لگتی مگر حسد کی وجہ سے اور نسلی برتری کے درپردہ احساس اور غرور کے باعث ایمان لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
178