برطانیہ میں ہونے والی ایک انوکھی اور طویل تحقیق کے بعد ہمارے علم میں مزید ایسی حتمی جینیاتی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں جو صد فیصد مختلف قسم کے سرطان کی وجہ بنتی ہیں۔ ان کی تعداد ماہرین نے 58 بتائی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی ہسپتال ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور دیگر اداروں نے مل کر اس ضمن میں 12 ہزار سے زائد مریضوں کا ڈیٹا دیکھا ہے۔ اس میں مختلف کینسروں کے انفرادی جین کو دیکھا گیا ہے اور انہیں کینسر کے نقشِ پا قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ماہرین نے یہاں تک نوٹ کیا ہے کہ جینیاتی تبدیلیاں کی وجہ آلودگی تھی، سگریٹ نوشی تھی یا پھر کوئی اور شے تھی۔
لیکن اس کام کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ تمام ہزاروں مریضوں کی سرطان والے جسمانی حصوں، رسولیوں، پھوڑوں اور خلیات کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ پھر نہایت صبر سے سب کا جینوم معلوم کیا گیا ہے یعنی کس قسم کے کینسر میں کونسی جینیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ پھراس بہت بڑے ڈیٹا سے نتائج اخذ کئے گئے ہیں جو ایک بہت امید افزا کام بھی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ کینسر کے ایک پھوڑے میں سینکڑوں اور ہزاروں جینیاتی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہم ان میں سے معدودے جند سے ہی واقف ہیں۔ ماہرین نے اب بڑی تبدیلیوں کو نوٹ کرکے انہیں جینیاتی نشانات یا سگنیچر کا نام دیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق جس طرح مقامِ جرم یا کرائم سین سے شواہد جمع کرکے مجرم تک پہنچا جاتا ہے عین اسی طرح انہوں نے کینسر کے مقام سے سراغ لگایا ہے کہ کس طرح اور کس طریقے سے جینیاتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اس کی وجوہ کیا کیا ہوسکتی ہیں۔
تحقیق کی سربراہ سیرینا نک زینل کے مطابق اس تحقیق کے تشخیصی اور معالجاتی اطلاقات ہوسکتے ہیں جو بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوم اس سے ہرانفرادی مریض کو اس کے کینسر کے لحاظ سے علاج میں بہت مدد مل سکے گی۔