ویب ڈیسک 29 نومبر 2021
کوپن ہیگن: ڈنمارک میں سائنس دان انسانی دماغ کے ایک ٹکڑے کو پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق تاریخ میں پہلی بار سائنس دانوں نے انسان کے دماغ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جسم سے باہر ایک پیٹری ڈش میں 12 گھنٹے زندہ رکھ کر بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
انسانی دماغ اتنا حساس ہے کہ اس کا ایک حصہ بھی الگ ہوکر فوری طور پر مر جاتا ہے، اور اس میں کسی قسم کی کوئی حیاتیاتی سرگرمی نہیں رہتی، لیکن ماہرین نے دماغ کے ایک سینٹی میٹر حصے کو بارہ گھنٹوں تک زندہ رکھا۔
کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ڈاکٹر ایما لیوس لوتھ کی سربراہی میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ایک مریض کے کارٹیکس سے دماغ کے ٹشو کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کے زندہ رہنے کو یقینی بنانے کے لیے تیزی سے ایک نیا عمل شروع کیا۔
ٹیم نے پہلے اس ٹشو کو ٹھنڈا کیا، اسے آکسیجن سے بھرا رکھا تاکہ خلیات زندہ رہیں، اور پھر اس چھوٹے سے ٹکڑے کو آئنز (برقی چارج والے مالیکیول) اور معدنیات کے ایک مرکب میں رکھ دیا، یہ وہی اجزا ہیں جو دماغی ریڑھ کی ہڈی کے مائع جات میں پائے جاتے ہیں
ڈاکٹر لوتھ نے اس سلسلے میں جانوروں پر ہونے والے تجربات کے حوالے سے دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسری ریسرچ سے اس سلسلے میں مدد لینا (یعنی چوہوں پر تحقیق بمقابلہ انسانوں پر تحقیق) ایسا تھا جیسے کوئی آئی فون کو ٹھیک کرتے ہوئے نوکیا 3310 کو دیکھے، ان کے بنیادی افعال تو ایک جیسے ہیں لیکن انسانی دماغ میں اس سے کہیں زیادہ پیچیدگی ہے۔
انھوں نے کہا ہم یہاں تک جانتے ہیں کہ خلیات کی اقسام اور بعض ریسیپٹرز کے اظہار میں بھی فرق ہے، لہٰذا انسانی ٹشو کو براہ راست ٹیسٹ کرنے کے قابل ہونا ایک منفرد موقع تھا۔
اپنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق میں انسانوں اور چوہوں کے نیورانز کے درمیان (ڈوپامائن کے ذریعے بڑھائے گئے) رابطوں پر توجہ مرکوز کی گئی، جس میں دیکھا گیا کہ انعام سے وابستہ نیورو ٹرانسمیٹر انسانی دماغ میں نیورانز کے درمیان رابطوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ڈوپامن ایک قسم کا نیوروٹرانسمیٹر ہے جو اعصابی خلیوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور ہماری خوشی محسوس کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لوتھ کا کہنا تھا کہ یہ جاننا علاج کے نئے مواقع کا باعث بن سکتا ہے، مثال کے طور پر فالج کے بعد بحالی کے سلسلے میں یا شدید دماغی نقصان کی دوسری اقسام، جہاں مریض کے دماغ کے نیورونز میں رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور نئے کنیکشنز پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ ڈوپامِن انسانوں اور چوہوں میں مختلف کردار ادا کرتی ہے، اس تجربے سے انسانی بافتوں پر ادویات کی براہ راست جانچ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ اس ٹکڑے میں اعصابی خلیات زندہ تھے اور ان سے برقی سگنل بھی پھوٹ رہے تھے، اس اہم صورت حال میں ماہرین کئی طرح کے تجربات کو بالکل نئے انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ محققین کا یہ گروپ فی الحال ایک ایسے طریقے پر کام کر رہا ہے جس سے دماغ کے چھوٹے ٹکڑوں کو 10 دن تک زندہ رکھا جا سکے۔
خیال رہے کہ اس تجربے کے لیے انسانی دماغ کے ٹکڑے کو استعمال کیا گیا، جس پر سوالات اٹھ سکتے ہیں، ڈاکٹر لوتھ نے بتایا کہ پہلی بات تو یہ کہ اس سے درد محسوس نہیں ہوتا، اور ہر قسم کے جذبات یا خیالات دماغ کے کئی حصوں سے گزرتے ہیں، ہم نے جس ٹکڑے پر کام کیا، وہ انسانی انگوٹھے کے سب سے بیرونی حصے کے سائز جتنا تھا، اور یہ دماغ کے دوسرے حصوں سے منسلک نہیں ہے، میں لوگوں کی اس حیرانی کو سمجھ سکتی ہوں کہ پیٹری ڈش میں جو نیوران موجود ہے، کیا اس میں یادداشت ہے، لیکن میں یہ بتاؤں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔