’’معرّیٰ کے زمانۂ قیامِ بغداد سے متعلق تین واقعات تاریخ کی کتابوں اور تذکروں میں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ معرّیٰ جیسے شخص کے لیے جو دور کی ایک آبادی سے چل کر آیا تھا، بغداد کا عام ادبی ماحول بھی کس قدر نخوت بھرا اور غیر دوستانہ تھا۔
معرّیٰ جب بغداد پہنچا تو الشریف المُرتضٰی اور الشریف الرّضی کے والد اور ایک بارسوخ علوی گھرانے کے بزرگ الشریف طاہر الموسوی کا تھوڑا عرصہ ہوئے انتقال ہوا تھا اور لوگ تعزیت کے لیے اس معزّز گھرانے میں آجا رہے تھے۔
ایک دن معرّیٰ بھی وہاں افسوس کرنے کے لیے پہنچا اور مجمع کی آخری صفوں کو پھلانگ کر آگے جانے لگا تو کسی نے کہا: الی این یا کلب؟ (کہاں جاتے ہو، کتّے!) معرّیٰ نے پلٹ کر جواب دیا ”کتّا وہ ہو گا جو کتّے کے ستّر نام نہ جانتا ہو!“ اس پر لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی اور کسی نے کہا کہ یہ ابوالعلاء معرّیٰ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ وہی عربی زبان میں کتّے کے لیے ستّر نام گنوا سکتا ہے۔ بہرحال وہ کسی پچھلی صف میں اٹک گیا۔
دوسرے شعرا جب اپنا تعزیتی کلام سنا چکے تو معرّیٰ کی باری آئی اور اس نے اپنا وہ مرثیہ پڑھا جس کا مطلع ہے۔ (یہاں ہم اس کا اردو ترجمہ و مفہوم کررہے ہیں)
وہ کیا گیا کہ مفلس کا مالی وسیلہ چلا گیا اور طالب خوشبو کے لیے عنبر نہ رہا۔ کاش زمانے کے حادثات میں کچھ تو توازن ہوتا۔
جب دونوں بھائیوں نے اس کا کلام سنا تو اُٹھ کر آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے لے گئے۔ کہنے لگے ”آپ غالباً ابو العلا معرّیٰ ہیں۔“ اس نے کہا۔ ”ہاں“ اس پر انھوں نے شاعر کی عزت و تکریم کی اور اسے اپنے پاس بٹھایا۔
دوسرا واقعہ اس امر کا غمّاز ہے کہ بغداد میں بعض اہلِ علم بھی معرّیٰ سے کس طر ح حسد کرنے لگے تھے، یہاں تک کہ اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ بغداد میں ایک نحوی تھا: ابوالحسن علی بن عیسیٰ جو اپنے علم کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ معرّیٰ نے سوچا کہ اس سے جا کر ملنا چاہیے۔
جب وہ اس کے ہاں پہنچا تو اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی۔ اس پر ابوالحسن نے آواز دی: ”لیصعد الاصطبل“ (اوپر آ جائو، اندھے میاں) ابوالعلا کو یہ طرزِ تخاطب بہت ناگوار گزرا اور وہ وہیں سے واپس مڑ گیا اور پھر کبھی ابوالحسن نحوی سے ملنے کا خیال دل میں نہ لایا۔
تیسرا واقعہ پھر اسی امیر الشریف المرتضیٰ کی مجلس سے متعلق ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک یہ واقعہ بغداد سے ہمارے شاعر کا دل اُچاٹ کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ابوالعلا جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، شاعر متنبی کا بہت مداح تھا اور اس کے دیوان کی شرح بھی اس نے لکھی تھی۔
ایک دن وہ الشریف المرتضیٰ کی مجلس میں آیا تو متنبی کا ذکر چل نکلا اور المرتضیٰ نے اس شاعر کے بارے میں کچھ نازیبا کلمات منہ سے نکالے۔ اس پر معرّیٰ سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا۔ ”اگر متنبی نے صرف ایک ہی نظم کہی ہوتی جس کا مطلع ہے: لک یا منازل فی القلوب منازل، تو اس کی عظمتِ شان کے لیے یہی کافی تھی۔“
یہ سن کر مرتضیٰ سیخ پا ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ معرّیٰ کو پاؤں سے گھسیٹ کر مجلس سے باہر نکال دیا جائے۔ لوگ امیر کے اس ردِّ عمل پر قدرے حیران ہوئے تو مرتضیٰ نے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ وہ مطلع پڑھنے سے اُس خبیث کا مطلب کیا تھا؟ لوگوں نے کہا ”نہیں“ تو کہنے لگا اس کا اشارہ دراصل متنبی کے مذکورہ قصیدے کے اُس شعر کی طرف تھا جس میں وہ کہتا ہے: (شعر کا اردو ترجمہ و مفہوم یہاں پیش کیا جارہا ہے)
اور جب تم میری مذمت کسی ایسے شخص کی زبان سے سنو جو خود ناقص ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہو گی کہ میں کامل ہوں!
یہ کچھ واقعات تو تاریخ کی کتابوں اور تذکروں میں درج ہو گئے۔ خدا جانے اس طرح کے اور کتنے واقعات ہوں گے جن میں ابوالعلا کو امّ البلاد بغداد کے حاسد اور تنگ دل مکینوں کی زبانی چھوٹی اور پر آزار باتیں سننی پڑی ہوں گی، لیکن ان کا کہیں ذکر نہ ہو سکا۔ ایک طرف یہ حالات تھے اور دوسری طرف ابوالعلا کے پاس وہ رقم ختم ہونے لگی تھی جو وہ معرّہ سے اپنے ساتھ لایا تھا۔
فاصلے کی دُوری کے سبب اس کے لیے اپنے شہر سے مزید رقم منگوانا بھی آسان نہیں تھا۔ بغداد میں خلفا اور امرا کے گرد خوشامدیوں اور موقع پرستوں کے ہجوم نے معرّیٰ کے لیے ایک باعزت رزق کے دروازے بند کر دیے تھے۔ وہ جب ان امرا اور رؤسا کی مدح میں قصائد کہنے کا روادار نہیں تھا تو پھر یہ بااثر لوگ کیوں اِس کی فکر کرتے کہ بغداد میں وارد ہونے والے اس جوہرِ قابل کو اس کے شایانِ شان کوئی تدریسی یا ثقافتی عہدہ دے کر اسے مالی طور پر آسودہ کر دیا جائے۔
ابوالعلا کو اب اپنا شہر معرّہ بُری طرح یاد آنے لگا تھا۔ ایک تو اپنی والدہ اور اقارب و اعزا سے جدائی، دوسرے ان لوگوں سے دُوری جو اس کے شہر میں اس کے ہاں آتے جاتے اور اس سے میل جول رکھتے تھے۔ اس پر مستزاد ہاتھ کی تنگی جو اب اسے بری طرح محسوس ہونے لگی تھی۔
اسی زمانے کی ایک نظم میں وہ پہلی دفعہ شراب پینے کا خیال دل میں لاتا ہے اور کہتا ہے:
میں نے چاہا کاش شراب مجھے اتنا بے خود کر دیتی کہ مجھے یہ سدھ نہ رہتی کہ میں کس حال میں ہوں۔ اور بھول جاتا کہ میں عراق میں جاں بلب ہوں اور میری سب خواہشیں ماند پڑ گئی ہیں۔
ایسے حالات میں بھی معرّیٰ شاید کچھ وقت اور بغداد میں رہ لیتا، لیکن انہی دنوں اسے معرّہ سے اپنی والدہ کی علالت کی خبر ملی، جس سے وہ بے چین ہو گیا اور اس نے بالآخر بغداد کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔
شاعر کی بد قسمتی کہ ابھی وہ معرّہ کے راستے میں ہی تھا کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔‘‘
(ابوالعلا معرّیٰ اپنے زمانے کے ایک عظیم مدبّر، دانا و حکیم اور مشہور شاعر تھے، انھوں نے 1057ء میں وفات پائی، ان کے بارے میں یہ پارے ممتاز شاعر و ادیب، محقّق اور مترجم محمد کاظم کی کتاب سے نقل کیے گئے ہیں)