میرا پورا بچپن سکول میں سائنس کے مضامین سے بھاگتے ہوئے گزرا۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ مجھے پڑھائی پسند نہیں تھی بلکہ میں پوزیشن ہولڈر ہوا کرتا تھا مگر سائنس یا سائنسی مضامین مجھے سمجھ نہیں آتے تھے۔
مگر بہت برسوں بعد جب گذشتہ دنوں میں لاہور کے ایک نجی سکول میں گیا اور وہاں بچوں کو ہنستے کھیلتے اور اچھلتے کودتے سائنس کے مختلف تجربات کرتے دیکھا تو مجھے اپنے بچپن پر ترس آنے لگا۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس سکول میں یا ان کے پڑھانے کے انداز میں فرق تھا تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ یہ سب کمال لالہ رخ اور ان کی ٹیم کا تھا۔ جو مختلف سکولوں میں جا کر بچوں کے لیے مختلف سائنس کے پروگرام منعقد کرواتی ہیں۔
ان کا پروگرام سکول کی پڑھائی سے بالکل مختلف ہے کیونکہ ان کے پروگرام میں پانی کے اندر دھماکے کرنا، غباروں سے راکٹ بنانا اور اسی طرح کے بہت سارے مختلف دلچسپ تجربات شامل ہیں۔
وہ کہتی ہے کہ ’ہمارے پروگرام کے دوران بچے صرف سنتے، لکھتے یا پڑھتے نہیں ہیں بلکہ وہ خود تجربہ کر کے سیکھتے ہیں۔ اس سے ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کس طرح ان کی روزمرہ زندگی میں اپلائی ہوتی ہے۔‘
لالہ رخ ایک نجی ادارے `سائنس فیوز` کی بانی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو `سائنس کمیونیکیٹر` کہتی ہیں۔ میں نے خود پہلے یہ لفظ کبھی نہیں سنا تھا۔
اس کا مطلب سمجھاتے ہوئے لالہ نے کہا کہ اس کا مقصد سائنس کو بچوں کے لیے آسان کرنا ہے۔ ’ہمارا مقصد ہے کہ ہم بچوں کو سمجھا سکھیں کہ سائنس کو لے کر وہ اس دنیا کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔‘
اس کی مثال میں نے اس دن خود دیکھی جہاں انھوں نے سائنسدان آئزک نیوٹن کے ’قانونِ حرکت‘ (یعنی لا آف موشن) کے بارے میں بچوں کو سپائیڈر مین کی مثال دیتے ہوئے سمجھائی۔
بچوں کو کہا گیا کہ سکیٹ بورڈ پر بیٹھے سپائیڈر مین کو جتنی طاقت سے دھکا دیں گے تو وہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔ جس کو ثابت کرنے کے لیے تمام بچے سپائیڈر مین کے ساتھ زور آزمائی کے لیے کود پڑے۔
لالہ نے خود اپنی تعلیم ناروے میں حاصل کی اور وہاں ایک ایسے ادارے کے ساتھ پانچ سال تک کام کیا جو اس سوچ پر عمل پیرا ہے کہ سائنس کے مضامین میں بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔
لالہ رخ کہتی ہیں کہ ’یہ کام میرا شوق ہے اور مجھے ناروے میں اس بات کا احساس ہوا کہ مجھے واپس پاکستان جانا چاہیے اور پاکستانی بچوں کے لیے یہ کرنا چاہیے۔‘
لالہ نے مختلف سائنسی آلات پر اپنی گرفت مضبوط کی اور انھیں سنبھالتے ہوئے اور سکول کے ہال کی طرف قدم رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ ہم صرف انھیں سائنسی علم نہ دیں بلکہ ہم نے اپنا نصاب اس طرح بنایا ہے کہ بچے سوچیں اور سوال کریں۔‘
پاکستان میں کام کرتے ہوئے انھوں نے اب تک گذشتہ تین برسوں میں تقریباً 30 ہزار بچوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ انھوں نے سائنس کے متعلق مختلف کورس بھی تشکیل دیے ہیں اور ان ہی کے مطابق بچوں کو مختلف سکولوں میں یا سکولوں کے باہر بھی سکھاتی ہیں۔
وہ چاہتی ہیں کہ سکولوں کے اساتذہ کو بھی اس چیز کی تربیت دیں تا کہ وہ بھی یہی باتیں نصاب میں شامل کرکے بچوں کو سائنس سکھا سکیں۔
ان کے پروگرام کے دوران بچے بڑھ چڑھ کر ان کے سائنس کے تجربات میں شامل ہونا چاہ رہے تھے۔ لالہ کا کہنا ہے کہ ’میرے لیے سب سے بڑی خوشی اور اطمینان، ان بچوں کے چہرے پر خوشی اور ان کی آنکھوں میں چمک کو دیکھ کر ہوتا ہے۔‘
لالہ چاہتی ہیں کہ بچوں میں رٹا مارنے کی عادت ختم ہو۔ وہ خود اپنے تجربات سے سائنس کو سمجھیں اور ان تجربات کو ہی اپنی زندگی آسان کرنے کے لیے استعمال کریں۔